پاکستان نے افغانستان کے بحرانوں سے کافی تجربہ حاصل کیا ہے، اور اس کی کوشش ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان کے دوبارہ قیام کے ساتھ ہی وہی مخاصمانہ سیاسی کردار ادا کرے جو پچھلے چالیس سال سے ادا کرتا آیا ہے۔
جب افغانستان میں بائیں بازو (اشتراکیت پسندوں) نے وسیع پیمانے پر سرگرمیاں شروع کیں اور ان کی افغانستان پر حملہ کروانے کی کوششیں باریاب ہوئیں، تو پاکستان کو افغان مجاہدین کی مدد کے ذریعے افغانستان کے داخلی امور میں براہ راست مداخلت کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔
افغان مجاہدین کو امداد فراہم کرنے والے امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد سے پاکستان اپنے اس ہدف میں کامیاب ہوا۔
اب کئی دہائیوں کے بعد جب افغانستان میں پہلی بار امن و استحکام آیا ہے، پاکستان ماضی کی طرح اب بھی افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایسے شواہد اور زمینی حقائق موجود ہیں کہ بعض قریب و بعید کے ممالک افغانستان میں بد امنی، تباہی اور افغانیوں کے قتل عام کے ذریعے سے اپنی بقا اور ترقی چاہتے ہیں اور ایسے ممالک میں سے ایک افغانستان کا پڑوسی ملک پاکستان بھی ہے۔
یہ ممالک افغانستان کی تیز رفتار ترقی اور استحکام کو برداشت نہیں کر پا رہے اور اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ایک بار افغانستان دائمی استحکام کی راہ پر گامزن ہو گیا تو جلد افغانستان کی مقتدر حکومت ان ممالک کے ساتھ افغانستان کی تاریخی سرحدوں اور مفادات کا مسئلہ ضرور اٹھائے گی۔ چنانچہ اس بنیاد پر انہوں نے امارت اسلامیہ کے خلاف ایک باقاعدہ منصوبہ بند پروگرام کے تحت پراپیگنڈہ اور مخاصمانہ سیاست شروع کر رکھی ہے۔
اس مختصر تحریر میں ہم ان نمایاں عوامل و اسباب کی نشاندہی کریں گے جن کی وجہ سے پاکستان نے یہ سیاست اختیار کی:
- پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ آج تک حل طلب ہے۔
- پاکستان افغانستان کو اپنی "اسٹریٹیجک ڈیپتھ” (تزویراتی گہرائی) گردانتا ہے۔
- اکستان چاہتا ہے کہ افغانستان پاکستانی مصنوعات کے صارفین کا گڑھ بنا رہے۔
- پاکستان افغانستان سے فائدہ اٹھا کر عالمی برادری کے ساتھ کھیل کھیل رہا ہے۔
- پاکستان خود کو بحران سے نمٹنے کے قابل سمجھتا ہے
- پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں دو متضاد کردار نبھا سکتا ہے۔ (آگ اور پانی سے کھیل رہا ہے)
- پاکستان ایک ایسے افغانستان کا خواہاں ہے جس کی خارجہ پالیسی پاکستانی مفاد میں ہو (انڈیا کے خلاف اور کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرے)۔
ان پالیسیوں کے خلاف امارت اسلامیہ افغانستان کو کیا کرنا چاہے؟
- پاکستان افغان مہاجرین کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرتا ہے، امارت اسلامیہ افغانستان کو ایک منظم طریقہ کار کے ذریعے سے تمام افغان مہاجرین کو آباد کرنا چاہیے۔
- افغانستان کی خارجہ پالیسی کو مشرق و مغرب کے مفادات کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے غیر جانبدار، متوازن، معیشت پر مبنی اور افغانستان کے قومی مفادات پر کھڑا ہونا چاہے۔
- پاکستان کو مختلف طریقوں سے یہ باور کروایا جائے کہ افغانستان کی ترقی و استحکام میں پاکستان کی ترقی و استحکام ہے۔
- افغانستان کے اداروں بالخصوص پانی کا انتظام اور صحت کے شعبے (ہیلتھ سیکٹر) پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ افغانستان پاکستان کی محتاجی سے آزاد ہو سکے۔
- امارت اسلامیہ کو عالمی برادری اور پڑوسی ممالک سے براہ راست تعامل کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کو یہ موقع میسر نہ آسکے کہ افغانستان کے حوالے سے خود عالمی برادری سے بات چیت یا تعامل کر سکے۔
- پاکستان بحرانوں سے نمٹنے اور متضاد کردار ادار کرنے میں مصروف ہے لیکن عالمی سیاست میں عالمی طاقتوں کا اعتماد حاصل کرنا اور ان کے ساتھ براہ راست تعامل امارت کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ پاکستان کی اس مخاصمانہ سیاست کے شر سے خود کو نجات دلائے۔
- امارت اسلامیہ کو چاہیے کہ افغانستان میں مستقل امن و سلامتی کی خاطر افغانستان کے اندر اور باہر افغانیوں کے لیے قومی مفاہمت کی راہ ہموار کرے تاکہ مستقبل میں کوئی ملک افغانیوں کو ایک آلے کے طور پر افغان حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد میں استعمال نہ کر سکے۔
حاصل کلام
افغانستان کی موجودہ تاریخ میں امارت اسلامیہ افغانستان کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا انتہائی نادر موقع ملا ہے۔
امارت اسلامیہ کو چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ طویل المدتی، مشترکہ مفادات کی بنیاد پر اور با معنی مذاکرات شروع کرے، تاکہ اس طریقے سے پاکستان کے حقیقی خدشات کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے حل کیا جا سکے جب کہ اس کے بدلے میں پاکستان افغانستان کے موجودہ حالات کا ادراک کرے اور حسنِ ہمسائیگی کے اصولوں کے مطابق افغانستان کے ساتھ مہذب تعلقات قائم کرے اور اس مخاصمانہ سیاست سے ہاتھ کھینچ لے۔