جمہوریت کے قیام اور امریکہ کی آمد سے قبل، افغانستان کو کالونی بنانے کے لیے بہت کام ہو چکا تھا، حتیٰ کہ سوویت حملے کے دور میں بھی امریکہ کی یہاں آمد کے لیے زمین تیار کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔
امریکہ نے اس مقصد کی خاطر معاشی، عسکری، علمی، ثقافتی و سیاسی شعبوں میں ایسی ذہن سازی کی تھی کہ عالمی برادری ہر معاملے میں اچھی مثال دینے کے لیے امریکہ کا نام لیتی تھی۔
وقت گزرتا گیا، ۲۰۰۱ء کا سال آگیا، امریکہ نے نئی جنگ کا آغاز کر دیا، لیکن یہ جنگ پہلے کی جنگوں سے مختلف تھی ، یہاں ان کا شعار تھا کہ ان کے افکار اپنی مٹھی میں لے لو باقی زمین ان کے پاس رہنے دو کیونکہ اگر افکار پر اغیار کا قبضہ ہو جائے تو پھر زمین کی آزادی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس شعار پر عمل درآمد کی خاطر اس نے یہاں ریڈیو، ٹی وی، رسائل، کتب، اور مختلف ویب سائٹس تیار کیں اور علمی مقامات پر کام شروع کیا۔
یونیورسٹیز سے ایسی نسل فارغ التحصیل ہوئی، جو صرف مادی ترقی کو ہی سمجھتی تھی، اپنی طرف سے وہ تھیوری میں تو تربیت یافتہ تھی، لیکن کسی عملی کام کے قابل نہیں تھی۔ ایسے میں ان کی پوری کوششیں دھوکے اور فریب کے ذریعے مادی فوائد حاصل کرنے پر تھیں۔
اپنے مقصد کے حصول کے لیے امریکہ نے ہر قسم کی عیاشی و فحاشی کی سہولت فراہم کر رکھی تھی۔ اور فحاشی کی مثال تو ہم نے عملی طور پر دیکھ بھی لی کہ ملک کی ایک معتبر یونیورسٹی (امریکین یونیورسٹی افغانستان) سے فتح کے بعد درجنوں ہم جنس پرست فرار ہوئے اور انہوں نے یہ تسلیم بھی کیا کہ ہم اسی کام کی غرض سے یہاں رہ رہے تھے۔ البتہ کچھ مستثنیات بھی تھیں، بعض طلباء بہت اچھے مجاہدین بھی تھے اور اس منصوبے پر عمل درآمد روکنے کے لیے کوشاں تھے۔
وقت گزرتا گیا، حملہ آوروں نے عسکری شکست کھائی اور شکست کھا کر فرار ہو گئے۔ لیکن ہمیں بعض ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جیسے:
بدترین تعلیمی نصاب، اس نصاب کے ذریعے نوجوانوں کی بری تربیت، اسلام کے نفاذ میں یہی تعلیم یافتہ نسل سب سے بڑی رکاوٹ، خراب ماحول جس میں بسنے والے صرف مادیت و شہوت پرستی ہی جانتے ہیں۔ یہی چیز ہے کہ نوجوانوں میں فحاشی کی بدولت غیرت و حمیت ناپید ہو جاتی ہے۔