اندھیرے میں صرف ستارے چمکتے ہیں؛ اللہ تعالی کی عظیم اور بے انتہا مخلوقات میں، زمین پر بھی وہی ستارے چمکتے ہیں جو راہ چلنے والوں اور راستہ بھٹکنے والوں کی رہنمائی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔
یہ چمکتے ہوئے ستارے وہ لوگ، وہ انسان ہیں جو اللہ کے ہدایت کے نور سے اپنے سینوں کو روشن کرتے ہیں، یہی نور ان کے لئے اندھیروں میں روشنی کی مانند ہوتا ہے اور وہ دوسروں کی رہنمائی کے لئے چمکتے ہیں۔
اسی رہنمائی کی بدولت میں آج ان روشن ستاروں میں سے ایک ستارے، تاریکیوں اور ظلمتوں میں دوسرے انسانوں کے لیے رہنمائی کا مینار شہید حافظ منصور تقبله الله کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔
اسلامی امت کے بہادر، نامور، مشہور، قربانی دینے والے اور اپنی جانیں پیش کرنے والے جانبازوں میں سے ایک عظیم ہیرو جودشمن کی سینوں سے نکل کر ان کے دلوں تک پہنچنے والے تیر کی طرح، شہید حافظ زین اللہ، جو حافظ منصور کے نام سے مشہورتھے۔
۱۔ پیدائش:
شہید حافظ منصور تقبله الله، جو اسلامی امت کے عظیم سپاہی اور مقدسات کی حفاظت کے لئے ہمیشہ تیار رہنے والے مجاہد تھے، ۱۳۷۵ ہجری شمسی میں میدان وردگ کے چک ضلع کے بابا قلعہ گاؤں میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام مرحوم سرگل تھا۔
۲۔ تعلیم:
شہید حافظ منصور تقبله الله نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں گاؤں کے امام سے حاصل کی، اور پھر قرآن عظیم الشان کی تعلیم اور حفظ کا آغاز کابل صوبے کے پانچویں زون کے نیازبیک علاقے میں حضرت ابو بن کعب رضی اللہ عنہ کی دینی مدرسے میں کیا۔ اسی مدرسے میں قرآن عظیم الشان حفظ کرنے کے بعد، اسی دینی مدرسے میں اسلامی علوم کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
۳۔ جدو جہد:
شہید حافظ منصور نے اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی صفوں میں شمولیت اختیار کی اور سید آباد کے جہاد اور شہید پرور ضلع شنیزمیں حاجی مولوی محمد نبی خالدحفظہ اللہ کے گروپ میں صلیبیوں کے بلیک لسٹ میں شامل، امریکیوں کے سب سے بڑے قاتل جن کے سرکی قیمت بھی لگائی گئی تھی، میری مراد امیرگل قریشی رحمہ اللہ کے ساتھیوں شامل ہوکر صلیبی دشمنوں اور ملکی غداروں کے خلاف جدوجہد کی ابتداء کی۔
اپنی جنگی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے انہوں نے ہمیشہ خود کو جسمانی طور پر مضبوط بنانے کی کوشش کی، تاکہ وہ دشمن کے خلاف خوب مزاحمت کرسکیں، شہید حافظ منصور ہر قسم کے آپریشنز میں نہایت بہادری کے ساتھ شامل ہوتے تھے اور اپنے ساتھیوں کی مدد کرتے تھے۔
شہید حافظ منصور تقبله الله ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے ہر قسم کے دشمن کے خلاف سخت ترین اور مؤثر جدوجہد کا عزم رکھتے تھے۔
شہید حافظ منصور تقبله الله، اس کے علاوہ کہ وہ مذکورہ علاقے میں اپنی مقدس جدوجہد میں مصروف تھے، کابل میں الحاج حمدالله حیدر صاحب حفظه الله کے ساتھ ایک فعال چریکی مجاہد کے طور پر اور وہاں شہری ساتھیوں کے لیے عسکری سامان اور مواد کی فراہمی اور نقل و حمل میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
شہید حافظ منصور نہ صرف میدان جنگ میں سرگرم تھے بلکہ کابل میں بھی اپنے مجاہد ساتھیوں کو ضروری جنگی سامان فراہم کرنے میں پیش پیش تھے۔
ان تمام مصروفیات کے باوجود، شہید حافظ منصور نے وردگ صوبے کی سیدآباد ضلعے کی متعلقہ یونٹ کی تشکیل میں کئی بار امریکی منصوبے، داعش کے خلاف بھی جہاد کیا، اسی مقصد کے تحت، انہوں نے ننگرہار کے اُفق پر شیطان کے ان بلند سینگوں کوجڑ سے اکھاڑنے کے لیے مذکورہ صوبے کا سفر کیا اور وہاں بہادری سے ان کے خلاف جنگ لڑی، بارہا ان کے امراء کی جانب سے شہید حافظ منصور تقبله الله کی جنگی تشکیل میں شمولیت کی درخواست بار بار رد کردی جاتی تھی، کیونکہ یہ اسفار یا ان تشکیلات میں خدمت مختلف مشکلات کی حامل تھی، لیکن شہید حافظ منصور تقبله الله بڑے شوق، ذوق، مضبوط عزم اور پختہ ارادے کے ساتھ ان تشکیلات میں شرکت کرتے تھے۔
شہید حافظ منصور اپنے ہم سنگر ساتھیوں کے علاوہ، متعلقہ علاقے کے دیگر مجاہدین اور عوام کے ساتھ بھی ایسا تعلق اور برتاؤ رکھتے تھے، جیسے وہ ایک طویل عرصے سے دوست رہے ہوں یا انہوں نے ایک ساتھ بہت وقت گزارا ہو۔
تمام مجاہدین اور عام مسلمانوں کے ساتھ ان کا نیک رویہ، عمدہ اخلاق اور مجموعی طور پر ان کی خدمت، اخلاقی لحاظ سے ان کی خاصیتیں تھیں، اخلاقی پہلو سے شہید حافظ منصور کا جتنا بھی ذکر کیا جائے یا میں ان کے بارے میں جتنا بھی لکھوں؛ پھر بھی ان کی اخلاقی جہت یا پہلو کی نسبت یہ مثال ایسے ہوگی جیسے مشت نمونہ از خروارے۔
یہ کہ شہید حافظ منصور تقبله الله کا خاندان کابل میں رہتا تھا لیکن وہ ضلع وردگ میں شہادت تک مسافر رہے، اسی علاقے کے مجاہدین، عوام اور خاص طور پر شنیزدرہ کے پتانخیل گاؤں کے استاد در محمد اور استاد محمد جاوید کے ساتھ، جہاں وہ زیادہ تر انہی گھروں میں رہتے تھے، انہوں نے خاندان کے ایک فرد کی طرح وقت گزارا اور اسی گاؤں کے مسجد میں رمضان المبارک کے مہینے میں ختم قرآن عظیم الشان کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
شہید حافظ منصور تقبله الله کی تمام جدوجہد، قربانیاں، محنتیں اور کوششوں کا واحد مقصد اور ہدف اللہ جل جلالہ کی زمین پر شریعت کانفاذ اور ایک خالص، پاکیزہ اسلامی نظام کا قیام تھا۔
۴۔ شہادت:
شہید حافظ منصور تقبله الله نے وردگ صوبے کے سیدآباد ضلع میں متعدد آپریشنز میں فزیکلی موجودگی کے علاوہ، کئی بار اسلام، مسلمانوں اور خاص طور پر عالمی سطح پر اسلامی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے بنائے گئے منصوبے داعشی خوارج کے خلاف ننگرہار کے پہاڑوں کی طرف جہادی سفر کیے اور وہاں اسلام کے دیگر غازیوں کے ساتھ مل کر اس منحرف عمل کے خلاف بڑی جنگ میں نمایاں حصہ لیا۔
یہ گمراہ طبقہ غازیوں کی سخت کاروائیوں کے تحت مایوسی اور تباہی کے دہانے پرآں کھڑاہوا؛ اس وقت قابض قوتوں نے ہمیشہ داعش کے ساتھ تعاون کے لیے مجاہدین غازیوں کے ابتدائی اور فرنٹ لائن کے مورچوں پر فضائی حملے اور رات کے چھاپے شروع کر دیے۔
رات کے فضائی آپریشنز کے دوران، شہید حافظ منصور اور وہاں موجود فرنٹ لائن کے دیگر مجاہدین قابض افواج کے چھاپوں اور فضائی حملوں کا شکار ہوئے؛ اور وہ ۱۳۹۷/۸/۲۴ ہجری شمسی کو ننگرہار ولایت کے خوگیانو ضلع کے وزیرو تنگی علاقے میں، داعشی گمراہوں اور ان کی مدد کے لیے آنے والی قابض افواج کی ایک چھاپے کے دوران شدید مزاحمت کے بعد، قابض افواج کے ایک فضائی حملے میں چند دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہوئے، نَحْسَبُهم کَذلِک وَالله حَسَیْبُهُمْ۔
۵۔ یادیں:
شہید حافظ منصور کی ایک یاد انجینئر صاحب صفی اللہ نے بیان کی ہے، جو ان کے گھر میں رہتے تھے:
رمضان المبارک کے مہینے میں جب وہ تراویح کا ختم کرتے، تو علاقے کے جید علماء، مجاہدین اور بزرگوں کی شرکت سے ایک شاندار محفل منعقد کرتے، گاؤں کے لوگ اور نوجوان انہیں لباس اور تحفے دیتے؛ اور اسی صبح وہ آواز دیتے: "انجینئر صاحب، گاڑی چلائیں اور لباس مہمان خانے سے لے آئیں”۔ دونوں جاتے، اور یہ لباس وہ شہداء کے بچوں اور غریب لوگوں کے گھروں میں تقسیم کرتے۔
شہادت سے متعلق ان کے بھائی نے واقعہ بیان کیا:
جیسے کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، شہید حافظ منصور تقبله الله کا خاندان اور بھائی کابل میں رہتے تھے؛ تو شہید حافظ منصور نے وصیت کی تھی کہ مجھے سیدآباد ضلع کے پتانخیل گاؤں کی قبرستان میں ہمارے ایک دوسرے شہید دوست فرید احمد (جو کوچی کے نام سے مشہور تھے) کے ساتھ دفن کیا جائے۔
لیکن خاندان کے تمام افراد، والدہ اور بھائیوں کے شدید اصرار کے بعد، جن کی خواہش تھی کہ شہید حافظ منصور کو یہاں کابل میں دفن کیا جائے، ہم نے ان کی بات مان لی اور انہیں کابل میں دفن کرنے کا بندوبست کرنے لگے۔
شہید کے بھائی نے مجھے ایک واقعہ سنایا وہ کہتے ہیں:
ہمارے محلے میں ایک اعلیٰ سطح کا سیکیورٹی اہلکار رہتا تھا، میں اس کے پاس گیا اور اس سے مدد طلب کی تاکہ ہمارے جنازے اور مراسم میں کوئی حکومت کی جانب سے رکاوٹ نہ ڈالے؛ موسم بھی اس وقت گرمی کا تھا، شدید گرمی تھی، اور شہید حافظ منصور بھی اس وقت ننگرہار میں تھے اور ان کا جسد ابھی تک وہاں سے نہیں پہنچا تھا، اس شخص نے جواب دیا کہ کوشش کریں کہ جلدی نعش پہنچ جائے، کیونکہ شدید گرمی ہے، اور جب آپ کے بھائی کا جسد پہنچے گا تو اسے بغیر جنازے کے دفن کر دیں، کیونکہ گرمی بہت زیادہ ہے، اب وہ بالکل خراب ہو چکا ہوگا۔
میں نے اس سے کہا: اگر واقعی وہ شہید ہو کر مرا ہے تو وہ تازہ ہوگا، اور اگرشہید نہیں ہواتو پھر وہ ویسا ہی ہوگا جیسا تم کہہ رہے ہو، اس نے مجھ سے کہا: یہ تمہارے دوستوں کی کہانیاں ہیں، ہر انسان گل سڑ جاتا ہے، اور اب تو وہ بالکل ہی خراب ہو چکا ہوگا؛ کیونکہ وہاں ننگرہار میں ۴۵ ڈگری تک گرمی ہے، تم سمجھ رہے ہویانہیں؟
جب شہید کا جنازہ آیا، میں نے اسے فون کیا کہ آ کر اسے دیکھو! یہ شہید ہیں؛ اور جب اس نے شہید حافظ منصور تقبله الله کا مبارک جسم دیکھا، تو وہ روتا ہوا، آہ و فغاں کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔