امارت اسلامیہ افغانستان سے ہم سب واقف ہیں جو ایک مکمل اسلامی نظام ہے اور جس کے حکام کی کوشش ہے کہ اپنے زیر تسلط خطے میں قرآنی اور نبوی ارشادات اور فقہ حنفی کے اصولوں کی روشنی میں ایک ایسا اسلامی نظام قائم کرے جس میں تمام جاندار موجودات خاص طور پر انسان اپنے شرعی حقوق کو محفوظ محسوس کریں۔
الحمدللہ اس حوالے سے کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور یہ دوسرا موقع ہے جب افغانستان میں ایسی عدلیہ قائم کی گئی ہے جسے افغان عوام عدالت عمری سے تشبیہ دیتے ہیں۔
یہ بھی سب پر واضح ہے کہ عدلیہ کے ذریعے انصاف فراہم کرنا اور حق کو حقدار تک پہنچانا اسلامی نظام کے شعبہ قضا کی اہم ذمہ داری ہے، امارت اسلامی میں قضا کو اس کی حیثیت کے مطابق مکمل خود مختاری حاصل ہے اور ہر قاضی اور عدالت کا رکن امارت اسلامی کے عظیم رہبر امیرالمؤمنین حفظہ اللہ تعالی کے جانب سے مکلف کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے دباؤ سے متاثر ہوئے بغیر مکمل حوصلے و جرأت کے ساتھ اسلامی ارشادات کی روشنی میں فیصلے کرے۔
سوال یہ ہے کہ امارت اسلامی میں عدالتی فیصلوں کا معیار کیا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ اوپر کی چند سطروں کو پڑھنے کے بعد قارئین کرام کو اس سوال کا جواب مل چکا ہوگا، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ عدالت عمری صرف اور صرف اس صورت میں ممکن ہے جب عدلیہ یا عدالتیں اپنے فیصلوں کا معیار اسلامی شریعت کو بنائیں، تاہم اس بات کی مزید وضاحت کے لیے میں چاہتا ہوں کہ امارت اسلامی کے عدالتی فیصلوں کے معیار کو بیان کروں، ان فیصلوں کے معیار وہی ہیں جو علماء اہل سنت والجماعت کے متفقہ فتاوی ہیں، جنہیں درج ذیل انداز میں ذکر کیا جاسکتاہے:
۱۔ قرآن مجید:
امارت اسلامی کی عدالتوں کے اصول و ضوابط قاضی، مفتی اور عدلیہ کے دیگر ارکان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ عدالت میں پیش کیے گئے معاملات پر غور کریں اور دیکھیں کہ آیا ان کے حل یا فیصلہ کے بارے میں قرآن مجید کا کوئی واضح حکم موجود ہے یا نہیں؟ اگر اس موضوع کے بارے میں قرآن مجید میں واضح حکم موجود ہو تو عدلیہ کے ارکان متعلقہ معاملے کا فیصلہ قرآن مجید کے اسی حکم کے مطابق کریں گے۔
مثال کے طور پر: قرآن مجید میں بہت سے بڑی جرائم (قتل، زنا، چوری، قذف وغیرہ) کے بارے میں صریح اور واضح احکام موجود ہیں، یہ موضوعات امارت اسلامی کی عدالتوں میں پیش ہونے کے بعد قرآن مجید کے حکم کے مطابق فیصلہ کیے جائیں گے۔
چونکہ اللہ تعالی نے ہی قرآن مجید کو نازل کیا، وہی حاکم مطلق اور تمام مخلوقات کا پالنے والا ہے، اس لیے فیصلہ کرنے کا تمام اختیار بھی صرف اسی کے پاس ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
« ألا له الخلق والأمر»[سورت الأعراف:۵۴]
ترجمہ: سن لو! پیدا کرنا اور تمام کاموں میں حکم کرنا اسی کے لائق ہے۔
اسی طرح اللہ عزوجل کے علاوہ کسی دوسرے کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
«إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ»[سورت الانعام:۵۷]
ترجمہ: فیصلے اور حکم کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔
تمام انسانوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی پیروی کریں اور اس کے احکامات کو بجا لائیں، کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی مصلحتوں اور ان کی کمزوریوں سے آگاہ ہیں اور وہ کبھی بھی اپنے بندوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتے۔
لہذا قانون اور عدلیہ کے لیے اصل مأخذ اور منبع اللہ تعالی کے احکام ہیں اور جیسے انبیاء علیہم السلام اللہ تعالی کے احکامات کو پہنچانے کے لیے اس کے اور بندوں کے درمیان واسطہ ہیں، اسی طرح ان انبیاء کی حدیث بھی دین میں حجت اور دلیل ہے۔
محترم قارئین! امارت اسلامی کے عدالتی فیصلوں کے تین مزید مآخذ اور معیار ہم آپ کو آئندہ قسطوں میں وضاحت سے ذکر کریں گے۔