افغانستان اپنی معاصر تاریخ میں کئی اتار چڑھاؤ اور اچھے برے تاریخی حالات کا شاہد رہاہے، جن کا تعلق نہ صرف افغان سرزمین سے ہے بلکہ دنیا کی صورتحال اور اس کے مستقبل سے بھی جڑا ہوا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ افغانوں نے ان نشیب و فراز سے بہت کم سبق اور عبرت حاصل کی ہے، اسی طرح اپنے مستقبل کی سیاسی زندگی کے لیے تاریخ کے دہرائے جانے والے عنصر پر زیادہ توجہ نہیں دی۔
ایسے ہی دنوں میں سے ایک دن ماہ دلو یا ماہ سلواغہ کی ۲۶ تاریخ ہے، جو سوویت یونین کی حملہ آور افواج کے دس سالہ فوجی قبضے اور پھر عبرتناک شکست کا دن سمجھا جاتا ہے۔ اس دن نہ صرف افغان عوام کے بہادر مجاہدین کی دس سالہ جدوجہد، قربانیاں اور مقدس جہاد ثمرآور ہوا، بلکہ دنیا کی تاریخ میں یہ حقیقت پھر ثبت ہوئی کہ آزادی کی خواہش رکھنے والوں کو آزادی ملتی ہے اور ظلم، بربریت اور قبضے کا تسلسل کبھی بھی مستقل نہیں ہوتا۔ ایک نہ ایک دن وہ اپنے ظلم اور بربریت کے پھیلائے گئے جال میں خود بھی پھنس جائیں گے۔
آنجہانی سوویت یونین نے اپنے شیطانی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑے تکبر اور غرور سے اپنے تمام فوجی اور انٹیلی جنس قوتوں کوافغانستان کی سرزمین پر اتارا اور اس امید کے ساتھ فضائی اور زمینی حملے کیے کہ اس مقدس سرزمین کو بھی دیگر مقبوضہ جمہوری حکومتوں کی طرح اپنی عظیم سلطنت کا حصہ بنا لے گا، اپنے سیاسی مسلک (کمیونزم)، مفادات، ثقافت اور وسطی ایشیاء میں اپنے اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کرے گا، ظاہراً یہ سب کچھ حملہ آوروں اورعالمی برادری کے نظروں میں ممکن تھا، لیکن خدا کی مرضی، مقدس جہاد کی برکات اور ہماری بہادر عوام اپنے فولادی عزم کے ساتھ تقدیر کے فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کیے ہوئی تھی۔
سرِدست یہاں اس مضمون میں روسیوں کی آمد، ان کی کاروائیوں، داخلی عناصر کی نوعیت اور ان کے رویوں پر بات نہیں کرنا چاہتا، اس پر بہت ساری تحریریں لکھی جاچکی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جائیں گی، یہاں ہمارے لیے وہ دروس اور عبر زیادہ اہم ہیں جنہیں افغان قوم کو ایسے تاریخی واقعات سے حاصل کرنی چاہئیں۔
۱۔ غیروں پر انحصار
پشتو میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ غیروں کی چارپائی آدھی رات کے لیے ہوتی ہے، یہ بات بالکل صحیح اور حقیقت پر مبنی ہے، حملہ آوروں نے تاریخ میں ہمیشہ جھوٹے نعرے لگائے اور اپنے آپ کو اپنے پٹھوؤں کے سامنے سچے دوست کے طور پر پیش کیا، لیکن تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ کفار اور غیرملکی قابضین پر انحصار کرنا ایک ایسی مہلک نیند ہے جس سے بیدار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کبھی بھی غیرملکیوں کی چارپائی پر بستر نہ بچھائیں اور حصولِ طاقت کے لئے غیرملکیوں پر کبھی بھی اعتبار نہ کیا جائے، کیونکہ اس میں دوسروں کے مفادات اور مقاصد کی حفاظت لازمی ہوتی ہے، وہ تمام لوگ جنہوں نے سوویت یونین، ان کے جھوٹے نعروں اور وسائل پر انحصار و اعتماد کیا، روسیوں کے جاتے ساتھ ہی بعد وہ شرمندہ ہوئے اور آج تک تاریخ انہیں غدار کے نام سے یاد کرتی ہے۔
۲۔ کٹھ پتلی اور وطن فروش حکومتیں
معاصر حملہ آور کفار کبھی بھی براہ راست مقبوضہ سرزمین کے تخت وتاج اپنے نام نہیں کرتے، بلکہ اس کے لئے پہلے وہ مصالحت، دوستی، خوشحالی اور ضروریات کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر مقبوضہ علاقے اور ملک میں ایک ایسی کٹھ پتلی جماعت کو عوامی نمائندہ حکومت کے طور پر برسرِاقتدار لے آتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو رنگ ونسل سے تو مقبوضہ علاقے کے ہی رہائشی ہوتے ہیں مگر ان کے دل و دماغ غلامی اور کفار کی خدمت کے لیے حملہ آور قابض کفار کے اصلی ہرکارے اور بنیاد کا کام دیتے ہیں۔
یہی ضمیر اور وطن فروش تھے جنہوں نے روسیوں کی آمد کے ساتھ ہی کمیونسٹ گروپس جیسے خلق اور پرچم کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے نعرے جیسے گھر، کپڑے، کھانا، محنت کش، سامراج کے خلاف، سرخ انقلاب وغیرہ کی بنیاد پر روسی قابضین کو راستے دکھائے اور اپنے ملک کو ان کے ہاتھوں بیچ ڈالا۔ اسی لیے ایسی وطن فروش اور کٹھ پتلی حکومتوں کو کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیں، کیونکہ ان کے لیے ملک اور عوام کا سودا کرنا بازار کے کسی معمولی سودے کی طرح ہوتا ہے اور اس طرح کی حکومتیں کبھی بھی انسانیت کا شعور نہیں رکھتیں۔
۳۔ جدوجہد اور قربانی کا ثمرہ:
افغان مجاہدین نے روسیوں کے خلاف انتہائی محدود جنگی سامان کے ساتھ جہاد شروع کیا، لیکن تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جنگیں وسائل سے نہیں، بلکہ پختہ عزم، سچے عقیدے اور حوصلے سے جیتی جاتی ہیں، ایسی جنگوں اور تاریخی واقعات میں اصل اعتماد اپنے ایمان، پاکیزہ روح، عزم اور حق کی دائمی فتح پر ہونا چاہیے، نہ کہ ان وسائل اور اشیاء پر جو حملہ آور افواج بھی استعمال کرتے ہیں، جلد یا بدیر ایسی کوششوں کا انجام کامیابی ہوتی ہے، بشرطیکہ عزم اور کامیابی پر سچا ایمان موجود ہو، روسیوں کے خلاف جہاد کی کامیابی کا اصل راز بھی ایمان کی طاقت اور اللہ پر توکل تھا۔
۴۔ جدوجہد کے نتائج اور آزادی کا تحفظ:
یہ بات شاید بہت عام ہو کہ "آزادی حاصل کرنا آسان ہے، لیکن اس کی حفاظت مشکل ہے” ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جدوجہد کے اختتام پر مجاہدین خود کو حکمران نہیں بلکہ اپنے معاشرے اور عوام کے خادم کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ انہیں تکبر نہیں کرنا چاہیے اور شکست خوردہ قابضین کے خلاف الزام تراشیوں اور نعرہ بازی کے بجائے ان تمام رخنوں کو بھرنا چاہیے جن کے ذریعے حملہ آوروں کے لیے قبضے کا راستہ ہموار ہوا تھا، اس طرح سے آزادی بھی محفوظ رہتی ہے اور ایسے تلخ واقعات کے دوبارہ ہونے سے بچا جا سکتا ہے، روسیوں کے انخلاء کے بعد ہم نے اس بڑی تاریخی غلطی کے نتائج دیکھے، اور ان تلخ یادوں کا اثر آج بھی ہر ملک کی تاریخ کا ایک تلخ حصہ ہے۔
۵۔ عوام کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا فن:
ہر وہ شخص جو کامیابی اور فتح کے بعد آئندہ فیصلوں کے بارے میں عوام سے مشاورت کرتا ہے، وہ کامیاب ہوتا ہے، بدقسمتی سے روسیوں کی شکست کے بعد عوام سے مشاورت نہیں کی گئی، قومی اتحاد اور ایک اجتماعی حکومت کے قیام کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا، ہر تنظیمی یا جہادی رہنماء نے صرف اپنے مفاد کو مقدم رکھا اور ایک بار پھر مختلف ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں میں پھنس کر خانہ جنگی شروع کرڈالی اور افغانستان کو کھنڈرات میں تبدیل کر ڈالا؛ اس دوران سب سے بدتر یہ عمل کیا کہ انہوں نے افغان قوم کو مختلف قوموں، زبانوں اور فرقوں میں بھی تقسیم کر دیا۔
ایسے حساس اوقات میں ضروری ہے کہ قومی اتحاد کو مضبوط کرنے اور مصالحت کے لیے عوام سے مشاورت کی جائے، جیسا کہ امریکی قبضے کے اختتام پر امارت اسلامی کی قیادت نے عمومی معافی کے بعد عوام سے مشاورت کی، اور گزشتہ تین سالوں میں اس کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملے ہیں، جس سے تلخ تجربات کے دوبارہ ہونے سے بچا جاسکا ہے۔
۶۔ جدوجہد کے ثقافتی اور تاریخی دستاویزات اور مواد کا تحفظ:
تاریخ سے سیکھنے کے علاوہ ہمیں اپنی تاریخ کے حوالے سے بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے، ہر معاشرتی ثقافت کی تاریخ یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہر دور میں محسوس اور غیر محسوس ثقافتی اور تاریخی مواد محفوظ کیا جائے، تاکہ ہم آئندہ نسلوں کے ساتھ تاریخی تعلق قائم کرسکیں۔ بدقسمتی سے روسیوں کی شکست کے بعد، دس سالہ جهاد کی عظیم کامیابیاں اور ثقافتی ورثہ یا تو بیچ دیا گیا یا تنظیمی رہنماؤں کے ذاتی اور آرائشی مال کے طور پر استعمال کیا گیا، اور بیت المال کے بجائے اسے ذاتی فائدے کا ذریعہ سمجھا گیا۔
آج ہم اپنی نئ نسل کو روسیوں کی شکست کے بارے میں معلومات دینے اور قائل کرنے کے لیے صرف تحریری کہانیاں اور چند ناکارہ توپوں اور ہتھیاروں کے سوا کچھ نہیں رکھتے، جبکہ ایسی جنگوں کے دوران ہیروز، ابطال امت اور غلاموں کے بارے میں فیصلے، کتابیں اور فلمیں شائع کی جاتی ہیں، روسیوں کی شکست کے بعد کئی روسی تجزیہ کاروں اور فوجیوں نے ایسی تحریریں لکھیں جن میں اپنے حملے کو جائز اور افغانوں کو وحشی اور تمدن مخالف قرار دیا، اس لیے ہمیں اپنی جدوجہد کے مادی اور معنوی تمام پہلوؤں کو حقیقت پسندانہ طور پر دستاویزی شکل میں محفوظ کرنا ضروری ہے۔
آخرکار ہم اس حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ آزادی حاصل کرنا مشکل ہے، لیکن اس کا تحفظ کرنا اس سے بھی زیادہ سخت اور مشکل کام ہے؛ تاریخ سیکھنے، اس سے سبق حاصل کرنے اور عبرت کی ایک کھلی کتاب ہے، سمجھدار قومیں وہ ہیں جو اس سے سیکھتی ہیں، اپنے چھپے اور کھلے دشمنوں کو پہچانتی ہیں، تاریخ میں ہونے والےایسے واقعات کے دوبارہ ہونے کی نوعیت کو سمجھتی ہیں، اپنے دین، ثقافت اور سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں قربانی اور بہادری کا جذبہ رکھتی ہیں، عوام کو اپنے ساتھ شامل کرتی ہیں اور کبھی بھی بیرونی سازشوں کے سامنے خاموش اور بے پرواہ نہیں رہتیں۔