حقیقت میں موجودہ صورتحال، نیا نظام جو تشکیل پا رہا ہے، بدلتے ہوئے کردار اور دنیا جو ایک نئی سمت کی طرف گامزن ہے، یہ سب وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہ تحریکیں، جو ماضی میں غلاموں کی طرح کسی دوسرے حاکم کے ماتحت کام کرتی تھیں، اب اپنے وجود اور بقا کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
داعش، جس نے کچھ عرصہ قبل تک اپنی جغرافیائی حدود کو وسعت دینے کی کوششیں کی تھیں، اب اتنی کمزور اور عالمی اسٹریٹجک منصوبوں سے باہر ہو چکی ہے کہ اس کے پاس صرف بقا کی فکر باقی رہ گئی ہے۔ استعماری ممالک کا داعش کی تحریک کے بارے میں نقطہ نظر بدل چکا ہے، کیونکہ یہ تحریک، جس کے پاس شروع سے کوئی مؤثر پیغام نہیں تھا، اب کسی کھاتے میں نہیں۔
یہ فطری بات ہے کہ وہ طاقتیں جو فوجی، فکری، سیاسی برتری کے لیے کوشاں ہیں، اب ایسی گروہوں کی حمایت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ اب داعش وسعت کی کوشش نہیں کر رہی، بلکہ اپنی موجودہ حالت کو محفوظ رکھنے کے لیے تگ و دو کر رہی ہے۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، وہ باقی رہے اور ختم نہ ہو۔
وہ داعش، جس نے چند سال قبل تک دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھے تھے، آج اتنی تنہائی کا شکار ہے کہ نہ اس کا سیاسی وزن باقی ہے، نہ فوجی طاقت، اور وہ صرف اپنے وجود اور بقا کے لیے لڑ رہی ہے۔
وہی داعش، جس نے چند سال قبل دنیا کو تین جغرافیائی حلقوں میں تقسیم کیا تھا، داخلی دائرہ: عراق اور شام؛ قریبی علاقے: وسیع مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ؛ اور دور دراز علاقے: یورپ، مشرقی ایشیا اور امریکہ، اور ان سب پر حکمرانی کے خواب دیکھے تھے، آج اتنی بے بس ہو چکی ہے کہ اس کے پاس اپنے لیے ایک مستحکم جائے پناہ بھی نہیں ہے۔
اس کی موجودہ حکمت عملی اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اس کا واحد ہدف بقا ہے۔ اگر وہ کامیاب ہو بھی جائے تو وہ صرف اتنا پھیل سکتی ہے کہ ایک بار پھر ایک جنگی تحریک کے طور پر پہچانی جائے۔ حقیقت میں، اگر دہشت گرد اور خوف پھیلانے والے گروہوں کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ تحریکیں جو خفیہ ایجنڈوں اور غلامی کی بنیاد پر ابھری تھیں، ان کا انجام کیا ہوا اور ان کا نتیجہ کیا نکلا۔
داعش کا اچانک اثر و رسوخ اتنا حیران کن تھا کہ اس نے دنیا کو دنگ کر دیا، لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ اس کی جڑیں، ڈھانچہ اور حقیقت سب کے سامنے عیاں ہو گئی۔ اس کی تباہ کن اور خوف پھیلانے والی سوچ اتنی گھٹیا، کرپٹ اور انسانی و بشری اقدار سے دور تھی کہ تمام اقوام نے نہ صرف اس کے نظریے سے نفرت کی، بلکہ اس گروہ سے اپنی بیزاری کا کھل کر اظہار کیا۔
اب یہ شکست خوردہ گروہ بقا کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے، چاہےاس کے لیے اسے انسانی وقار اور اقدار کو ہی کیوں نہ چھوڑنا پڑے۔ اس کا نظریہ، صحیح اور اصولی سوچ سے خالی ہے اور کسی زندہ دینی فکر سے تعلق نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ اس کے عسکری زوال کے ساتھ اس نے اپنی سماجی اور عوامی حیثیت بھی کھو دی۔ یہ بھی واضح ہے کہ جب کوئی گروہ عوام اور معاشرے سے دور ہو جاتا ہے، تو استعماری طاقتوں کی نظر میں بھی وہ اپنی اہمیت کھو دیتا ہے اور ایک بے قیمت شطرنج کی چال بن کر رہ جاتا ہے۔
داعش کی مالی امداد مغرب کی طرف سے اس وقت تک کارآمد تھی جب تک اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ لیکن جب اس کی اصلیت عالمی برادری اور علاقے کے عوام کے سامنے آشکار ہو گئی، تو اس نے اپنا کردار کھو دیا۔ اب وہ صرف بقا کے لیے لڑ رہے ہیں، یعنی ان کے لیے یہ اہم نہیں کہ وہ کس نام یا عنوان سے پہچانے جائیں، ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ موجود رہیں اور زندہ رہیں۔
ان کے لیے اب نہ کوئی سرحد اہمیت رکھتی ہے، نہ کوئی سرخ لکیر، نہ کوئی منصوبہ، نہ کوئی مقصد۔ جیسے کوئی شخص سیلاب کے بیچ میں پھنس جائے اور ہر کانٹے اور تنکے کو پکڑنے کی کوشش کرے، صرف اس لیے کہ وہ زندہ رہ سکے اور مارا نہ جائے۔