ماہ حوت کی ۱۰ تاریخ وہ دن تھا جب شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف پہلا معرکہ لڑا گیا۔ یہ معرکہ اس وقت ہوا جب مغرور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، ایک شرعی نظام کو تباہ کیا اور ظلم و ستم کا آغاز کیا۔ وہ خود کو انسان اور انسانیت کے علمبردار کہتے تھے، لیکن عین اسی وقت انسانیت ان کے ہاتھوں خون میں لت پت اور انتہائی بے کسی کے عالم میں دم توڑ رہی تھی۔
جی ہاں، وہ وقت خوفناک لمحوں کا تھا، مایوسی چھا گئی تھی، شکست کا سامنا تھا، لشکرِ حق ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا، مسلمان مایوس تھے اور ایک نامعلوم مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے، لیکن یہاں اللہ کی مشیت کچھ اور تھی، یہاں وہ مغرور امریکہ اور اس کے اتحادی تھے، جو بھوکے بھیڑیے کی طرح ہر کسی پر حملہ آور ہونے کے لیے بے تاب تھے، لیکن وہ حیران و سرگردان رہ گئے۔
انہوں نے بہت کوششیں کیں، لیکن آخرکار ان کا گریبان ایک شخص کے ہاتھ میں آیا، وہ شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں موجود فاتح شاہی کوٹ شہید کمانڈر ملا سیف الرحمان منصور تھے۔ یہاں اللہ نے مغرور دنیا کو بے یار و مددگار افغان عوام کے سامنے ذلیل و رسوا کر دیا اور انہیں ذلت و پستی کی طرف دھکیل دیا۔
اللہ جل جلالہ نے افغان عوام میں سے ایک بطل کو کھڑا کیا اور سب سے پہلے اس کے ہاتھوں مغرور دشمن کو سخت سزا دلوائی۔ اسی مقام سے اللہ جل جلالہ نے پورے افغانستان میں دوبارہ جہاد کا جذبہ بیدار کیا، اور یہی وہ وقت تھا جب ایک سخت جنگ کا آغاز ہوا۔
مغرور دنیا چند نوجوانوں کے نعرہ تکبیر اور حملوں کے سامنے ہار گئی، غرور کی اونچی چٹانوں سے ان بہادر جنگجوؤں نے دشمن کو زمین پر گرا کر شکست سے دوچار کر دیا۔ جب مغرور دشمن کو یقین ہوا کہ وہ جنگ میں شکست کی طرف جا رہا ہے، تو اس نے مجاہدین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے جنگ کو "اینا کونڈا اژدہے” کا نام دیا، لیکن یہ بھی دشمن کی شکست پر منتج ہوا۔
کیونکہ یہاں لڑنے والے نوجوان صرف اللہ پر بھروسہ رکھتے تھے، ان کے دل اللہ کی محبت سے معمور تھے، اور یہ حق کا چھوٹا سا لشکر شہادت کے عہد پر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ شاہی کوٹ کا معرکہ روز بروز شدت اختیار کرتا گیا اور دشمن کو سنگین نقصان پہنچا۔
اس جنگ میں امریکیوں کے بھاری جانی نقصانات نے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیا، اور انہوں نے انتہائی ذلت کے ساتھ اعتراف کیا: "ہم نے ویتنام کے بعد ایسی مشکل جنگ کا سامنا نہیں کیا۔”
یہ خبر صرف شاہی کوٹ کے پہاڑوں میں لڑنے والے تھکے ماندے مجاہدین ہی کے لیے نہیں، بلکہ اس نے تمام مسلمانوں کو نئی روح بخشی، خاص طور پر اس معرکے میں حصہ لینے والے مجاہدین مزید مضبوط ہوئے اور جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا۔
یہ جنگ اتنی تیز اور مغرور دنیا اتنی کمزور ہو گئی کہ ہر افغان کے خون میں جوش آ گیا؛ اور اسی وجہ سے انتقامی حملے اس معرکے کے بعد مسلسل جاری رہے، دشمن افغان قوم کے سامنے دم توڑ رہا تھا، کار بم دھماکوں نے ان کے دلوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا اور نوجوانوں نے ایسی قربانیاں دیں جو انسانوں کے تصور سے ماوراء تھیں۔
یہ جنگ دو دہائیوں تک جاری رہی، لیکن مغرور دنیا آہستہ آہستہ شکست تسلیم کرنے لگی اور آخرکار شاہی کوٹ کی جنگ میں تباہ ہو جانے والی دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ وہ ہار چکی ہے اور دوحہ میں مذاکرات کے لیے بیٹھنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ طالبان نے اس ذلیل دشمن کو نہ صرف جنگ کے میدان میں بلکہ سیاست کے میدان میں بھی ایسی شکست دی کہ وہ ذلت کے ساتھ چلے گئے اور ان کے تمام وسائل مجاہدین کے ہاتھوں غنیمت بن گئے۔
شاہی کوٹ کا یہ ہیرو، جہاد کا بانی، شہید کمانڈر ملا سیف الرحمن منصور بھی اس معرکہ خون آشام میں دشمن کے ہاتھوں شہید ہو گئے، وہ اس عظیم انتقامی جہاد کے پہلے شہید تھے، اللہم تقبل شهادته!