بیس سال قبل امارت اسلامیہ پورے افغانستان پر حکومت قائم کرنے کے بعد، ضلع پنجشیر پر قبضہ کرنے کے قریب ہی تھی کہ مسعود، ربّانی اور دیگر ڈالر کے پجاریوں نے امریکہ اور نیٹو کو اپنی مدد کے لیے بلا لیا۔
امریکہ کا اصل مقصد اسلامی نظام کی تباہی تھا، کیونکہ یہ اتحادِ امت کا باعث بن رہا تھا اور مستقبل میں یہود کی حکمرانی کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔ مجاہدین کو سخت حالات کا سامنا تھا۔ امریکہ نے بے گناہ شہریوں اور عوامی مقامات پر بمباری کی اور بے گناہ لوگوں کو شہید کیا۔
انہیں بمباریوں کے دوران بون کانفرنس میں منتخب کی جانے والی، مغربی مفادات کی محافظ کابینہ کابل پہنچ گئی۔ اس کابینہ کے اکثر ارکان وہ تھے جنہیں مغرب نے برسوں تلک بہت اچھے طریقے سے جمہوری انتظامیہ میں بدعنوانی اور خیانت کرنے کی تربیت دی تھی۔
یہ کابینہ عبوری حکومت کے اعلان کے نام پر اقتدار کی مسند پر براجمان ہو گئی۔ امریکہ اور اس انتظامیہ نے ظلم کا بازار گرم کر دیا، عوام آرام کی خواہشمند تھی لیکن لوگ ان کے ہاتھوں یا تو لاپتہ ہو رہے تھے یا ظلم و درندگی کے ذریعے شہید کیے جا رہے تھے۔
ان حالات نے امارت اسلامیہ کی افواج کے پاکیزہ جہاد کے جذبات کو پھر سے بیدار اور تازہ کر دیا۔ شاہی کوٹ کے معرکہ میں دشمن کے خلاف جنگ کے لیے ایک بار پھر ملک کا دینی طبقہ، جو تمام انقلابات میں قربانیوں کی صفِ اوّلین میں رہا، میدان میں اتر آیا۔ ہر جگہ جنگ زور پکڑتی گئی اور ہلاکتیں روز بروز بڑھتی چلی گئیں لیکن پوری قوم دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی، ایک جانب پاکیزہ کردار طالب جب کہ دوسری جانب حکومت کے نام پر استعمار اور ان کے داخلی حواری۔
طالب امن کا خواہاں تھا، نفاذ شریعت اس کا نصب العین تھا، اغیار کو کبھی کسی صورت قبول نہیں کرتا تھا، اور اس راہ میں کبھی کبھار تو اس کے اپنا خاندان بھی اس کے ساتھ تعاون نہ کرتا، لیکن پھر بھی عوام نے اس کی ہر ممکن مدد کی، اس پورے انقلاب کی مالی معاونت عوام نے کی، زخموں، قید و بند کی صعوبتوں، تکالیف اور شہادتوں سے ان کے عزم و ارادے مزید پختہ ہوتے گئے۔
دوسری جانب استعمار اسلام کو مٹانے کے در پے تھا، اس کے پاس بھاری اور جدید اسلحہ تھا اور اسے ۵۲ ملکوں کا تعاون حاصل تھا لیکن روز بروز اس کا مورال کمزور تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ استعمار کے غلاموں نے عوام کو دہشت زدہ کرنے میں انہوں نے یہودیوں سے بھی تمغۂ امتیاز حاصل کیا۔ ان کی موت شہادت اور جنت کے لیے نہیں بلکہ مغرب سے آنے والوں کے لیے تھی، مادی اشیاء کے شوق میں اس قدر غرق ہوئے کہ بیس سال تک حق و باطل کی پہچان نہ کر سکے۔
بیس سال تک معرکۂ حق و باطل جاری رہا، بالآخر جدید اسلحے سے لیس، مضبوط اور تعداد میں کہیں بڑا لیکن باطل گروہ ناکام ہوا، دوسری جانب اسلحے کے اعتبار سے کمزور، تعداد میں قلیل لیکن ایمان کے اسلحے سے مزین اور اس کی طاقت سے قوی گروہ نے اقتدار حاصل کر لیا۔ اقتدار حاصل کرنے کے ساتھ ہی بدلے اور انتقام کی بجائے عام معافی کا اعلان کر دیا، قاتلوں کو معاف کر دیا، اور ملک کی خوشحالی کے لیے کام شروع کر دیا۔ اب الحمد للہ تین سال کی مسافت کے بعد ایماندار لوگ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ امت کی مردہ امیدوں کو پھر سے زندہ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔