احمد اللہ سعد
میرے والد صاحب کے بقول:
"مجھے زخمیوں کے علاج کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اس وقت میں نے بڑے ملا صاحب کے ساتھ موجود ساتھیوں سے کہا کہ میں ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، جب میں ملاقات کی جگہ سے قریب پہنچا تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں ان سے کہوں گا کیا؟ مجلس میں داخلے کے ساتھ ہی سلام دعا اور حال احوال پوچھا، خوش دلی سے صحت و عافیت کی خبر لی پھر میں نے بیعت کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور ساتھ میں ان سے کہا کہ میں آپ سے اسلام کی بیعت کرتا ہوں, اگر میں نے آپ کو اسلام سے ذرّا برابر بھی ہٹا ہوا پایا تو اس عاجز بندے کی آپ سے بیعت ختم ہو گی۔ انہوں نے مجھے سینے سے لگایا اور بڑے اعتماد سے کہا، مجھے اللہ تعالیٰ نے ایسے بہترین مخلص ساتھی عطا کیے ہیں، میری بھی تمہیں یہ نصیحت ہے کہ شریعت پر میری اطاعت کرنا اور غیر شرعی امور پر میری مخالفت کرنا۔ پھر میں نے ان میں وفات تک شریعت سے انحراف نہیں دیکھا۔
مجھے اس پر بہت فخر ہے کہ میں ان کی زیارت سے مشرف ہوا، مجھے ناز ہے کہ اس بہترین مرحوم امیر کی امارت اور بیعت تلے میں نے زندگی گزاری، اور آج تک اس پیاری امارت میں ہوں، مجھے اس پر بھی فخر ہے کہ استعمار کے خلاف جہاد میں نے آپ رحمہ اللہ کی قیادت میں کیا اور فتح حاصل کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کو جنت الفردوس عطا فرماءے۔”
یہاں یہ اشعار دہرانا چاہوں گا:
میری زندگی کی خواہش تھی نہیں دیکھ سکا
خدارا! یہ کیسا انسان تھا میں نہیں دیکھ سکا
میرے پاس آج بھی مخلص امیر المؤمنین رحمہ اللہ کے ہاتھ کی یادگار موجود ہے، اور وقتاً فوقتاً اسے دیکھ کر سکون محسوس کرتا ہوں۔
ان کی اسلام سے محبت ایسی تھی کہ ایک بڑی سلطنت ایک مہمان کی خاطر قربان کر ڈالی۔