حروریہ خوارج کا ایک گروہ تھا جو کہ اموی خلیفہ عمربن عبد العزیز کے دور میں موصل کے آس پاس کے علاقوں میں سرگرم تھا، یہ گروہ اسلام کے ابتدائی ایام میں خارجی فرقے کے باقی ماندہ افراد پر مشتمل تھا، جو جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے الگ ہو گیا تھا۔
وہ اپنے سخت عقائد اور مخصوص خیالات و افکار سے جانے جاتے تھے اور عام طور پر مسلمانوں اور حکمرانوں پر تنقید کرتے تھے، خاص طور پر ان مسلمانوں کو جنہیں وہ اپنے معیار کے مطابق گناہ گار یا نافرمان سمجھتے تھے۔
حروریہ گروہ کا عدل و انصاف کے حوالے سے بہت شدید مؤقف تھا، انہوں نے اس وقت کی حکومتوں کے خلاف اپنی مخالفت و بغاوت کا اظہار کیا۔
وہ اسلام کے عادل اور متقی خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ کے سامنے بھی اپنی انتہا پسندی سے پیچھے نہیں ہٹے، حالانکہ عمر بن عبدالعزیز، حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے خاندان سے تھے، اور ان کی وجہ سے انہیں دوسرے عمر کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔
انہیں اسلام کی تاریخ میں پانچویں خلیفہ کے طور پر جانا جاتا ہے، کیونکہ ان کی حکمرانی بعینہ چار خلفائے راشدین کی خلافت کا تسلسل تھی۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اپنے دور حکومت میں عدل و انصاف کے لیے بہت پرعزم رہے، وہ ناانصافی اور جبر کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے اور لوگوں کے حقوق کا سنجیدگی سے تحفظ کرتے تھے۔
عمر بن عبدالعزیز نے اپنے دور حکومت میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں، جن میں سرکاری ملازمین کے رویے کو بہتر بنانا، عوامی ٹیکسوں میں کمی اور تمام شہریوں کے لیے برابری کا اصول شامل تھا اور ہر شہری کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں اتنی خوشحالی تھی کہ زکوٰۃ لینے والے نہیں تھے، لیکن خوارج اس خلافت کو اسلام کے نقطہ نظر سے غلط کہتے اور سمجھتے تھے اور اپنی غلط رائے کی بنیاد پر اس کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے۔
وہ موصل کی سڑکوں پر مسافروں اور بے گناہ مسلمانوں کو پریشان کرتے اور ناحق خون بہاتے تھے، بہت کوششوں کے بعد عمر بن عبدالعزیزؒ نے انہیں مناظرے کے لیے قائل کیا۔
جب وہ بحث کے لیے حاضر ہوئے تو عمر بن عبدالعزیزؒ نے انہیں لاجواب کردیا اوران کی ہر دلیل کا دندان شکن جواب دیا۔ اس کے بعد ان سے قسم لی گئی کہ اب سڑکوں پر لوگوں کے لیے مشکلات پیدا نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی کا ناحق خون بہائیں گے، ساتھ میں یہ بھی وعدہ کیا کہ اگر وہ لوگ اپنے عہد پر قائم نہ رہے تو انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
اس مجلس کے بعد، فورا ہی انہوں نے اپنا کیا گیا عہد توڑ ڈالا اور بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔
عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے سعید بن جوشی کی قیادت میں کوفہ سے مجاہدین کی ایک جماعت بھیجی، انہوں نے ان کی بغاوت کچلنے کے لیے شدید جنگ کی، یہاں تک علاقے میں امن وامان بحال ہوگیا۔
اس واقعے کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ عمر بن عبدالعزیزؒ کی بنیادی پالیسی جنگ سے گریز اور پرامن حل تلاش کرنا تھی لیکن جب ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اپنے گورنروں کو قانونی اور حفاظتی تقاضوں کی بنیاد پر اقدامات کرنے کی اجازت دی۔
بعض مؤرخین نے حروریہ خوارج کے قائدین کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے۔
۱۔ شحبیب بن یزید الشیبانی:
شحبیب ایک اہم ترین خارجی رہنما تھا، جو عراق اور شام میں سرگرم رہا، وہ خوارج کی فوج کا ایک بہادر اور بااثر رہنما سمجھا جاتا تھا اور مختلف علاقوں میں حکومتی افواج کے لیے مسائل پیدا کرتا تھا۔
٢۔ عبدالله بن إباض:
خوارج کے اہم راہنماؤں میں شمار ہوتا ہے، وہ اباضیہ خوارج کے گروہ کا مؤسس بھی ہے۔
٣۔ قطری بن الفجاءۃ:
قطری بھی ان کا ایک رہنما تھا، وہ اپنی تقریروں اور نظموں کے ذریعے خوارج کو خاص طور پر جدوجہد اور جنگ کے میدان میں جذباتی احساسات دلاتا اور ان کے نظریات کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔