مسجد اقصیٰ دنیا کے ان مقدس، اہم اور متنازعہ مقامات میں شمار ہوتا ہے جن کا تاریخ میں خصوصی مقام رہا ہے، یہ مسجد مسلمانوں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسری مقدس ترین جگہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں اسی مسجد کی طرف لے جایا گیا تھا، جہاں انسانیت کی تاریخ کا سب سے عظیم اجتماع منعقد ہوا؛ اس اجتماع میں تمام انبیاء علیہم السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی اور ان کے پیچھے نماز ادا کی، مسجد اقصیٰ کا شمار مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد ان عظیم ترین مساجد میں ہوتا ہے جن کے بہت سے فضائل ذکرہوئے ہیں۔
روایات کے مطابق اس مسجد کی بنیاد حضرت داود علیہ السلام نے رکھی تھی اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس عمارت کو مکمل کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد سترہ مہینے تک اس مسجد کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور اسراء و معراج کا عظیم واقعہ بھی اسی جگہ پیش آیا۔
’’الاقصیٰ‘‘ لغت میں ’’دور، سب سے دور یا آخری حد‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے، کیونکہ یہ مسجد مسجد الحرام سے بہت دور واقع ہے۔
مقدمہ:
تقریباً پچھلے پچھتر سال سے، مسلمان اور فلسطینی عوام مختلف مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، مارے گئے ہیں اور قید میں ڈالے گئے ہیں؛ خواتین بیوہ ہوئی ہیں، بچے یتیم ہو گئے ہیں، گھروں اور کھیتوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔
مسجد اقصیٰ جو مسلمانوں کی قبلہ اول اور تیسری مقدس ترین جگہ ہے، اب صہیونی حملہ آوروں کے قبضے میں ہے، ان ظالموں کے ہاتھ بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ ابھی تک ظلم اور غاصبانہ قبضے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔
دوسری طرف، مغربی اور یورپی ممالک ان حملہ آوروں کی مکمل حمایت کرتے ہیں، جدید ہتھیاروں اور اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرتے ہیں، اگر حقیقت دیکھی جائے تو یہ حملہ مسلمانوں کو ان کے اپنے اعمال کی سزا ہے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا ہے، اسلام سے دور ہو گئے ہیں اور دنیاوی امور میں غرق ہو چکے ہیں۔
مسلمانوں کے رہنماء و حکمران کافروں کی حمایت پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے سامنے دست سوال پھیلاتے ہیں، ان کے درمیان اختلافات اور گروہی اختلافات وہ بنیادی امر ہے جس سے اللہ سبحانہ وتعالی نے سختی سے منع فرمایاہے:
[وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ]
ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، آپس میں جھگڑا مت کرو، اگر جھگڑا کرو گے تو ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری طاقت ختم ہو جائے گی اور صبر کرو؛ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(الانفال: 46)
حل:
مسلمانوں کے لئے واحد حل یہ ہے کہ وہ اسلام کی طرف صحیح معنوں میں رجوع کریں، اپنے بُرے اعمال سے توبہ کریں، کفار کی تقلید سے گریز کریں اور اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں۔
اللہ تعالی ایسے مومنوں کا خواہاں ہے جو قدس کے پہلے فاتح حضرت عمر بن خطاب رضي الله عنه کی طرح ہوں، جنہوں نے بغیر خون بہائے اس مقدس سرزمین کو فتح کیا، اللہ سبحانه وتعالی کا فرمان ہے:
[وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ]۔
ترجمہ: اور تم ہی کامیاب ہوگے، اگر تم سچے مومن ہو۔(آل عمران: 139)
ہم اس دن کی امید کرتے ہیں کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت، شرف اوراتحاد کو پھرسے حاصل کریں گے، ان شاء اللہ۔
مسجد اقصی کی اہمیت:
مسجد اقصی اسلام میں خاص اور اعلی مقام رکھتی ہے؛ کیونکہ یہ کعبے کے بعد زمین پر دوسری مسجد ہے، اللہ سبحانه وتعالی قرآن میں فرماتے ہیں:
[إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ]۔
ترجمہ: بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہ مکہ کی مبارک سرزمین میں ہے، جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔(آل عمران: 96)
حضرت ابوذر رضي الله عنه روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا:
اے رسول اللہ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر ہوئی؟
آپ نے فرمایا: مسجد الحرام۔
میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سی مسجد تعمیرہوئی؟
آپ نے فرمایا: مسجد الاقصی۔
میں نے پوچھا: ان دونوں کے درمیان کتنا وقت تھا؟
آپ نے فرمایا: چالیس سال۔(بخاری)
روایات کے مطابق مسجد الحرام اور مسجد الاقصی دونوں کی بنیاد حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی، بعد میں جب نوح علیہ السلام کے وقت مسجد الحرام ڈھے گئی اور اس کے صرف نشانات رہ گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کی تعمیرِنو کا حکم دیا گیا، اسی طرح مسجد الاقصی کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں دوبارہ تعمیر کیا گیا، کیونکہ یہاں بہت سے انبیاء علیہم السلام کی قبریں اور مزارات ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔