ابھی تک عصر کی آذانیں نہیں دی گئی تھیں، سورج کی کرنیں ڈرون طیاروں کے زد میں آنے والے گھروں جو اب کھنڈرات بن چکے تھے، پر پڑ رہی تھیں، میں آہستہ آہستہ بحیرہ روم کے ساحل کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ چلو یہاں ساحل پر وضو کرکے تھوڑی دیر آرام کرلوں، کہ اچانک وحشی کتوں کا ایک ریوڑ میرے پاس سے گزرا، ان کتوں کے جبڑے بچوں کی گوشت سے آلودہ تھے، اور ان کے منہ سے ابھی بھی تازہ خون ٹپک رہا تھا۔ عمارت اور گھر نام کی کوئی بھی شے باقی نہیں بچی تھی، مٹی پر گری ہوئی سمنٹ کی دیواروں کے بیچ سے کبھی کبھار آہ و فریاد کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ میں سمندر کی طرف جا رہا تھا۔
کبھی کبھار قرآن کریم کی نرم اور میٹھی تلاوت میرے کانوں میں سنائی دیتی، تو میں دل میں غزہ کا نام لیتا، میرے جسم پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے، کیوں کہ میں خود اسی غزہ میں تھا جس کی کہانیاں انسان کے حواس کھودیتی ہیں۔ آہستہ آہستہ میں ساحل کے قریب پہنچ رہا تھا، اپنے بازوؤں کو اوپر اٹھایا، اپنی جیب سے مسواک نکالی، میں نے ابھی وضو کرنا شروع نہیں کیا تھا کہ اچانک ایک دھماکہ ہوا، یہ دھماکہ سننے کے بعد مجھے ہوش نہیں رہا، جب شام کو ہوش میں آیا تو خود کو کفن میں لپٹا ہوا پایا، میرے ارد گرد بے شمار شہداء کفن میں لپٹے ہوئے تھے، اس حالت کو دیکھ کر میرے منہ سے چیخ نکل گئی، اور میری چیخ کے ساتھ ساتھ میرے قریب بیٹھے بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر قہقہے لگائے، یہ بچے بھی شام کے وقت کی گئی بمباری میں زخمی ہوئے تھے۔
بچوں کے اعضا ابھی تک خون سے تر تھے، میں نے اپنے آپ کو سنبھالا، وہاں کھڑے لوگوں نے مجھے دیکھ کر کوئی توجہ نہیں دی، میں اٹھا اور اپنا کفن اتار دیا، میرا سر چکرانے لگا، مجھے ماں یاد آئی، اگر وہ مجھے اس حال میں دیکھتی تو کتنی دوائیں اور مرہم پٹیاں میرے لیے لاتی، لیکن میرا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ میں شدید پیاسا تھا، میں نے وہاں کھڑے لوگوں سے پانی مانگا، انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں کا تمام پانی زہریلا ہو چکا ہے، مجھے کل صبح تک پانی پہنچنے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
میں ایک بچے کی طرف دیکھ رہا تھا جو زمین پر بیٹھا تھا، اس کے پاؤں میں زخم تھا، جب بھی وہ اپنے زخم پر ہاتھ لگاتا، درد سے اس کا جسم لرزنے لگتا۔ میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی، لیکن میرا دل کمزور ہو چکا تھا۔ میں نے لوہے کا ایک ٹکڑا لیا اور اس کے سہارے آہستہ آہستہ وہاں سے چلنے لگا۔ کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک اسی جگہ پر کئی میزائل لگے، ہر چیز کو مٹی کے ساتھ برابر کر دیا۔ وہاں زخمی بچوں کی چیخیں سنائی دی گئیں، شہید دوبارہ شہید ہوئے، لیکن اس بار اپنے کفن میں ٹکڑوں کی صورت میں، صرف میں ہی تھا جو صحیح سلامت نکل گیا، اگر میں واپس جاتا بھی تو میرے بس میں کیا ہوتا؟
میرے کپڑے آگ کے جھلسے ہوئے تھے، میں آہستہ آہستہ اس جگہ سے نکلنے لگا۔ جگہ جگہ گدھوں اور گھوڑوں کے پیچھے بندھی گاڑیاں نظر آتی تھیں جن پر ہر کوئی اپنے شہیدوں کو لادے جا رہا تھا، وہ دفن کرنے کی جگہیں تلاش کر رہے تھے۔ چودھوی رات کا چاند آسمان میں سفید دھاری دار قائم تھا، اس کی روشنی پر غزہ کے زخموں کا کوئی اثر نہیں تھا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ رات کو کسی محفوظ جگہ تک پہنچ جاؤں۔
سردیوں کی ان راتوں میں باہر رہنا موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔ دور سے مجھے ایک مدھم روشنی نظر آئی، میں نے اس طرف ڈیڑھ گھنٹہ چلا، وہاں پہنچتے ہی کسی کی سسکیاں سنائی دینے لگیں۔ آہستہ آہستہ قریب ہوا، شام کے وقت اس جگہ بھی بمباری ہوئی تھی، صرف ایک ننھی بچی زندہ بچی تھی، اس کا تمام خاندان شہید ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ شہیدوں کی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں، بچی اپنی ماں کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی، اور دیوار پر کچھ چیزوں پر آگ جل رہی تھی، وہی آگ مجھے گھر کی روشنی کی طرح محسوس ہوئی۔ میری آمد پر بچی نے چیخیں مارنا شروع کر دیں، اس کی آنکھیں زیادہ رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں، اور اس کے خاندان کے شہیدوں کے جسم ابھی بھی گرم تھے۔ میں نے ایک شہید کے سرہانے رکھے بستر کو اٹھایا، اس سے مٹی اور ریت ہٹائی، اور بچی کے لیے اپنی ماں کے قریب جگہ بنائی۔
میں نے شہیدوں کو تھوڑا سا سمیٹا اور ان کے جسموں کو ایک دوسرے کے قریب کیا، ان کے جسموں کے چھیتڑے اکٹھے کیے، میں بھی بہت تھک گیا تھا، اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر ایک جوان شہید کے سرہانے بیٹھ گیا۔ بچی کی سسکیاں ختم ہوگئیں جیسے اسے نیند آ گئی ہو۔ میں نے اس نوجوان شہید کے خون میں لت پت جسم کو دیکھا اور میرا دل پکارنے لگا:
غزہ اس امت کی زندگی کی آخری سانس ہے، دو ارب مسلمانوں میں اتنی غیرت نہیں ہے کہ ان معصوموں کا پوچھ سکیں۔ کیا قیامت کے میدان میں وہ اسی امت کے خلاف گواہی نہیں دیں گے کہ ہم تو جلتے کٹتے رہے اور تم اپنے نرم بستروں پر محو خواب تھے۔ کیا امت کے نوجوانوں کے لیے شہداء غزہ کا یہی طعنہ کافی نہیں ہوگا؟
ہم کیوں خاموش رہے، کیوں بے حسی کی حالت میں رہے؟
یہ سوالات ہمیشہ میرے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں، اس معصوم بچی اور شہیدوں کی یاد میں، میں اپنے ضمیر سے پوچھتا ہوں کہ ان کا جواب کیا ہوگا۔ ان آوازوں اور چیخوں کا شور نہ صرف میرے دل کو بلکہ پورے امت کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔
اے امت کے نوجوانو، تم کس طرح بے غیرتی کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہو، ہمیں دیکھ کر تمہارے جسموں میں انتقام کا خون کیوں گرم نہیں ہوتا؟
کیا تم غزہ اور یتیموں کی آہ و فریاد نہیں سنتے؟ کیا تم اندھے اور بہرے ہو یا تمہارے جسم روح سے خالی ہوچکے ہیں؟